حضرت مولانا زین العابدین الاعظمی المعروفی علیہ الرحمہ
اہل
علم کے حلقوں میں یہ خبر نہایت رنج وغم کے ساتھ پڑھی جائے
گی کہ عالم ربانی ، محدث جلیل ناقد بصیر،شیخ طریقت،
راقم سطور کے والد ماجد حضرت مولانا زین العابدین صاحب اعظمی
معروفی علیہ الرحمہ ۱۶/ جمادی الاخری ۱۴۳۴ھ بمطابق ۲۸/اپریل ۲۰۱۳ء بروز اتواربعد نماز ظہر ۲بج کر ۱۵منٹ پر اپنے وطن پورہ معروف میں بہ عمر ۸۳ برس اس دار فانی سے رحلت فرماگئے۔ انَّاللہ و انَّا الیہ
راجعون۔
مرحوم تواضع و
انکساری کے خوگر ،صبر و استقامت کے پیکراور اخلاص و للہیت کا
نمونہ تھے ،ان کے سینے میں اتباعِ سنت کا جذبہ ہمیشہ موجزن رہتا
تھا، چھوٹوں پر شفقت اور خورد نوازی ان کا طرہٴ امتیاز تھا، ہمیشہ
چھوٹوں کو آگے بڑھانے انہیں بنانے سنوارنے، ان کی خوابیدہ صلاحیتوں
کو بیدار کرنے کی فکر میں لگے رہتے تھے، وہ اپنے شاگردوں کو
آسمان کی بلندیوں پر دیکھناچاہتے تھے، ان کی کوشش تھی
کہ طلبہ علم و عمل کے میدان میں خود ان سے بھی آگے بڑھ جائیں،
ہمیشہ حوصلہ افزائی کیاکرتے تھے، قسام ازل نے ان کے اندر اتنے
سارے اوصاف وکمالات، اور اتنی ساری
خوبیوں کو جمع کردیا تھا کہ انہیں احاطہٴ تحریر میں
لانے کے لیے دفتر کے دفتر درکار ہیں، ملک کے چند مشاہیر اہل علم
و قلم اور راسخین فی العلم میں ان کا شمار ہوتا تھا، ان کا سب
سے بڑا کارنامہ مردم گری اور افراد سازی ہے،ان کے انتقال پر نہ صرف
ہمارا خاندان اور جامعہ مظاہرعلوم غم زدہ ہے؛بلکہ پورے ملک کی علمی
فضا سوگوار ہے ،ایک ایسا علمی خلا پیداہوگیا ہے جس
کا پُر ہونا بظاہر مشکل ہے،
آئے عشاق، گئے وعدہٴ فردا لے کر اب انھیں ڈھونڈ چراغِ رخِ زیبا
لے کر
ان کے تلامذہ نہ صرف ملک کے طول و عرض؛
بلکہ بیرون ممالک پھیلے ہوئے ہیں، رب کریم ان کی
خدمات کو قبول فرماکر انہیں اعلی علیین میں جگہ عنایت
فرمائے! آمین۔
میرے والد صاحب نور الله مرقدہ کی
ولادت علم و فضل کی سرزمین پورہ معروف ضلع مئو میں ۲۹/جمادی الاخری ۱۳۵۱ھ کا دن گزارکر رات میں ہوئی، اس طرح ولادت کی
تاریخ یکم رجب کہی جاسکتی ہے عیسوی سنہ کے
اعتبار سے یہ اکتوبر ۱۹۳۲ء ہے، اپنے والدین کی وہ تیسری اولاد
تھے سب سے پہلے ان کی ایک بڑی بہن بچپن میں انتقال کرچکی
تھیں، ان کے بعد ان کے بڑے بھائی مولانا محمد یونس صاحب مرحوم و
مغفور فاضل دیوبند تھے، جو ۱۳۴۷ھ میں پیدا ہوئے، بچپن میں والد صاحب نور
اللہ مرقدہ کے ہم سبق بھی رہ چکے تھے؛ مگر والد صاحب کی دیوبند
سے فراغت سے ایک سال پہلے فارغ ہوکر گھر تشریف لائے۔اور ایک
سال کے بعد اپنی بیوہ اور ۶ ماہ کا بچہ چھوڑ کر وفات پاگئے۔ انا لله وانا الیہ راجعون۔
سلسلہ نسب: زین العابدین بن محمد بشیر بن
محمد نذیر بن غلام محمد بن حافظ عبد القادر بن عبدالرحمن مرحوم آگے بھی
چند پشت تک سلسلہٴ نسب محفوظ تھا؛ لیکن اب محفوظ نہیں۔
ہمارے جد امجد حافظ عبد القادر صاحب ،مولانا محمد طاہر معروفی علیہ
الرحمہ کے معاصر تھے جو مولانا سخاوت علی و مولانا کرامت علی جونپوری
کے ارشد تلامذہ میں سے ہیں۔ اس زمانے میں علم دین
کے اندر سرزمین پورہ معروف میں یہی دو گھرانے نمایاں
اور ممتاز تھے۔
پہلی درس گاہ مدرسہ معروفیہ : ۱۳۵۷ھ میں مدرسہ معروفیہ پورہ معروف میں داخل کیے
گئے حضرت مولانا شبلی صاحب شیداخیرآبادی سے (جو اس زمانے
میں مدرسہ معروفیہ میں پڑھا یا کرتے تھے) اردو کی
تمام کتابیں، نقل، املا، گنتی، پہاڑہ وغیرہ کی تعلیم
حاصل کی، انجمن حمایت اسلام لاہور والی اردو کی پہلی
و دوسری کتاب، اردو دینیات کا پہلا اور دوسرا رسالہ انہیں
سے پڑھا۔ مولانا شبلی صاحب شیداخیرآبادی فارسی
زبان و ادب کے بے مثال معلم، بہترین خطاط اور اعلیٰ درجے کے
قادر الکلام شاعر تھے، یہ تمام اوصاف ان کے (تلامذہ بشمول مولانا محمد عثمان
معروفی اور والد صاحب علیہ الرحمہ کے اندر بتمام وجوہ منتقل ہوئے)
مدرسہ معروفیہ میں حضرت والد صاحب نورا للہ مرقدہ کے اساتذہ میں
مولانا شبلی خیرآبادی، منشی علی احمدمیونڑوی
اور عربی کے اساتذہ میں مولانا عبد الستار اعظمی معروفی
سابق شیخ الحدیث دارالعلوم ندوة العلماء وبرادر اکبر مولانا عبد
الجبار اعظمی معروفی علیہ الرحمة کا نام نامی ہے۔
والد صاحب نے اپنے گاؤں میں رہ کر ان اساطین علم و فضل اور اہل فن سے
بھرپور استفادہ کیا، اس مدرسہ میں شرح تہذیب ، شرع وقایہ
اور شرح جامی تک تعلیم حاصل کی، پھر اس کے بعد ضلع اعظم گڑھ کے
ایک بڑے علمی مرکز مدرسہ احیاء العلوم مبارک پور تعلیم
حاصل کرنے کے لیے تشریف لے گئے۔ امتحان داخلہ حضرت مولانا مفتی
محمد یٰسین صاحب نے لیا پھر مطلوبہ جماعت میں داخلہ
مل گیا۔ یہ ۱۳۶۷ھ کی بات ہے۔
پورہ معروف کے کل تین ہم جماعت ساتھی
ایک ساتھ مدرسہ احیاء العلوم مبارک پور میں داخل ہوئے۔
مدرسہ احیاء
العلوم مبارک پور کے اساتذہٴ کرام
(۱) حضرت
مولانا مفتی محمد یٰسین صاحب: ان کے پاس ہدایہ اولین
، قطبی، بعدہ سلم العلوم پڑھی۔
(۲) حضرت مولانا داؤد اکبر صاحب اصلاحی: ان کے پاس ترجمہٴ
قرآن شروع کے چار پارے، پھر نورا لانوار، پھر متنبی قافیہ ب تک پڑھی۔
(۳) حضرت مولانا عبدالجبار صاحب اعظمی معروفی :ان کے
پاس مقامات حریری۔
(۴) حضرت مولانا قاری ظہیر الدین صاحب معروفی:
ان کے پاس نور الانوار پڑھی،پھر تدریس کے زمانے میں خارج میں
انھیں کے پاس قراء تِ سبعہ بھی پڑھی۔
(۵) نور الانوار کا بقیہ مولانا بشیر احمد مبارک پوری
سے پڑھا۔
اس مدرسہ کے تمام امتحانات امتیازی
نمبرات سے پاس کیے، یہاں صرف ایک سال قیام رہا۔
دارالعلوم دیوبند
میں پہلا سال
پھر شوال ۱۳۶۸ھ میں ازہر ہند دارالعلوم دیوبند کے لیے
روانگی ہوئی، بڑے بھائی مولانا محمد یونس صاحب مرحوم بھی
ساتھ تھے، جو حضرات دیوبند ساتھ تشریف لے گئے، ان میں دو نام
بطور خاص قابل ذکر ہیں، ایک مولانا و مفتی اختر حسن صاحب صدر
مفتی و استاذ جامعہ مفتاح العلوم مئو (تقریباً تین سال پہلے
انتقال فرماگئے)
دوسرے مولانا و ڈاکٹر سعید الرحمن اعظمی
مہتمم دارالعلوم ندوة العلماء لکھنوٴ، عربی کے مایہ ناز ادیب،
ادارہ کے ترجمان ”مجلہ البعث الاسلامی “اور جریدہ ”الرائد“ کے ایڈیٹر
اور کئی کتابوں کے مصنف ہیں ۔
والد صاحب کا داخلہ امتحان مولانا
عبدالاحد صاحب استاذ دارالعلوم دیوبند نے لیا۔
دارالعلوم دیوبند میں پہلے
سال اسباق کی ترتیب اس طرح تھی:
پہلااور دوسرا گھنٹہ: شیخ الادب والفقہ
حضرت مولانا اعزاز علی
امروہوی کے پاس تھا اس میں ہدایہ آخرین کا سبق ہوتا تھا۔
تیسرا گھنٹہ:حضرت مولانا عبد
الاحد صاحب کے پاس تھا ان سے ملاحسن شرح سلم العلوم پڑھی۔
چوتھا گھنٹہ:حضرت مولانا محمد جلیل
کیرانوی علیہ الرحمہ کے پاس تھا ان سے میبذی پڑھی۔
پانچواں گھنٹہ: تجوید (فوائد مکیہ)
قاری محمد عتیق صاحب
تلمیذ قاری عبد الوحید الٰہ آبادی کے پاس تھا۔
چھٹا گھنٹہ: مختصر المعانی، تلخیص
المفتاح مولانا فخرا لحسن صاحب
کے پاس تھا۔
بعد مغرب دیوان متنبی، عروض
المفتاح مولانا فخر الحسن صاحب
کے پاس تھا۔
اس زمانے میں پاس ہونے کے لیے
مفروضہ پچاس نمبروں میں سے چالیس نمبر حاصل کرنا ضروری تھا اور
طالب علم کی حسن تحریر پر انعامی نمبرات جوپچاس سے زاید
بھی ہوسکتے تھے دیے جاتے تھے۔
سال اول ۶۹/۱۳۶۸ھ کے نمبرات
ہدایہ
آخرین ۴۰ فوائد مکیہ ۴۵ میبذی ۴۵ خوشنویسی
۴۷
ملاحسن ۵۱ مختصر ۴۸ شرح عقائد نسفی ۵۰ تلخیص ۵۰
قراء ت ۵۰ دیوان متنبی ۵۱
دارالعلوم دیوبند
میں دوسرا سال
(۱) مشکوٰة شریف مکمل: حضرت مولانا محمد جلیل صاحب
کے پاس۔
اس کتاب میں سالانہ امتحان میں ۵۲ نمبر حاصل کیے۔
(۲) جلالین شریف مکمل: حضرت مولانا نصیر احمد
خانصاحب کے پاس۔
غالباً اسی سال مولانا نے پہلی بار
جلالین پڑھائی۔ سالانہ امتحان میں ۵۰ حاصل کیے۔
(۳) شرح نخبة الفکر: حضرت مولانا محمد جلیل صاحب کے پاس ۔
اس کتاب میں سالانہ امتحان میں ۵۰ نمبر حاصل کیے۔
(۴) الفوز الکبیر فی اصول التفسیر: حضرت مولانا
نصیر احمد خانصاحب
کے پاس ۔
اس کتاب میں سالانہ امتحان میں
۵۰ نمبر حاصل کیے۔
(۵) خوشنویسی: حضرت مولانا اشتیاق احمد صاحب کے پاس۔
اس کتاب میں سالانہ امتحان میں ۵۰ نمبر حاصل کیے۔
(۶) سراجی: قاضی مسعود احمد صاحب نائب مفتی دارالعلوم دیوبند
کے پاس ۔
اس کتاب میں سالانہ امتحان میں۵۰ نمبرحاصل کیے۔
(۷) قراء ت: جناب قاری
عتیق احمد صاحب کے پاس۔
ان کے پاس قرآن کریم بروایت حفص
مکمل کیا، اور سالانہ امتحان میں ۴۵ نمبر حاصل کیے۔
(۸) المقدمة الجزریہ: جناب قاری عتیق احمد صاحب
کے پاس۔
اس کتاب میں سالانہ امتحان میں ۵۰ نمبر حاصل کیے۔
(۹) خلاصة البیان: جناب قاری عتیق احمد صاحب کے
پاس۔
اس کتاب میں سالانہ امتحان میں
۵۰ نمبر حاصل کیے۔
(۱۰) تصریح علم
ہیئت : حضرت مولانا بشیر احمد صاحب کے پاس۔
اس کتاب میں سالانہ امتحان میں ۵۳ نمبر حاصل کیے۔
(۱۱) شرح چمغینی
علم ہیئت: حضرت مولانا بشیر احمد صاحب کے پاس۔
اس کتاب میں سالانہ امتحان میں ۵۳ نمبر حاصل کیے۔
(۱۲) بست باب زائچہ:
حضرت مولانا بشیر احمد صاحب کے پاس۔
اس کتاب میں سالانہ امتحان میں ۴۹ نمبر حاصل کیے۔
(۱۳) اقلیدس( جیومیٹری):
حضرت مولانا بشیر احمد صاحب کے پاس۔
اس کتاب میں سالانہ امتحان میں ۵۳ نمبر حاصل کیے۔
امسال پورے دارالعلوم میں دوسری
پوزیشن حاصل کی۔
دارالعلوم دیوبند
میں تیسرا سال
ایک سال کے اندر فنون کی
جملہ کتابیں پڑھ کر علمی تشنگی بجھائی۔
(۱) بیضاوی شریف سورہ بقرہ: حضرت مولانا ظہور
احمد صاحب علیہ الرحمہ کے پاس۔
سالانہ امتحان میں ۵۲ نمبر ملے۔
(۲) شرح عقائد : حضرت مولانا ظہور احمد صاحب علیہ الرحمہ کے
پاس۔
سالانہ امتحان میں ۴۴ نمبر ملے۔
(۳) المسامرہ فی شرح المسائرہ: حضرت مولانا ظہور احمد صاحب
علیہ الرحمہ کے پاس۔
سالانہ امتحان میں ۴۵ نمبر ملے۔
(۴) امور عامہ فن عقائد میں: حضرت العلام مولانا محمد ابراہیم
بلیاوی علیہ الرحمہ کے پاس۔
سالانہ امتحان میں ۴۰ نمبر ملے۔
(۵) شرح عقائد جلالی: حضرت العلام مولانا محمد ابراہیم
بلیاوی علیہ الرحمہ سے ۴۰ نمبر ملے۔
(۶) توضیح تلویح فی اصول الفقہ حضرت مولانا ظہور
احمد صاحب کے پاس ۴۰ نمبر ملے
(۷) قاضی مبارک فی المنطق حضرت علامہ
محمد ابراہیم بلیاوی علیہ الرحمہ سے ۴۱ نمبر ملے۔
(۸) حمد اللہ: حضرت مولانا فخر الحسن صاحب کے پاس ۳۶ نمبر ملے۔
(۹) صدرا فلسفہ : حضرت مولانا محمد جلیل صاحب مرحوم کے پاس ۵۱ نمبر ملے۔
(۱۰) شرح اشارات لابن
سینا الطوسی حضرت العلام ابراہیم بلیاوی کے پاس ۵۱ نمبر ملے۔
(۱۱) خوشنویسی
حضرت مولانا اشتیاق احمد صاحب مرحوم کے پاس سالانہ امتحان میں ۵۱ نمبر ملے۔
(۱۲) اسی سال
خارج میں حضرت مولانا مفتی مہدی حسن صاحب صدر مفتی
دارالعلوم دیوبند کے پاس فتوی نویسی کی مشق بھی
کی ،حضرت نے بعد نماز عشاء وقت عنایت فرمایا، والد صاحب علیہ
الرحمہ پر نہایت شفقت فرمایا کرتے تھے، والد صاحب نور اللہ مرقدہ نے
کل چوہتر فتاوی تحریر کیے، یہ جوابات مفتی مہدی
حسن، مفتی مسعود احمد اور مفتی احمد علی سعید مفتیان
دارالعلوم کی تصدیقات کے بعد سائلین کو ارسال کیے گئے،
حضرت مفتی مہدی حسن رحمة اللہ علیہ کو والد صاحب کی فتوی
نویسی پر انتہائی اعتماد تھا۔ دارالافتاء میں تقرری
کے لیے حضرت مہتمم صاحب سے سفارش بھی فرماچکے تھے، لیکن بعض کرم
فرماؤں کی عنایات تقرری کی راہ میں حائل ہوگئیں،
ان کے نام کا پردہ خفا میں رہنا ہی مناسب ہے۔
دارالعلوم دیوبند
میں چوتھا سال
(۱) بخاری شریف: شیخ العرب والعجم شیخ
الاسلام حضرت مولاناسید حسین احمدمدنی
سے۔
سالانہ امتحان میں ۵۱ نمبر حاصل کیے۔
(۲) ترمذی شریف اول: شیخ العرب والعجم شیخ
الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنی سے
سالانہ امتحان میں ۵۰ نمبر حاصل کیے۔
ترمذی شریف جلد ثانی
حضرت مولانا اعزاز علی صاحب
امروہوی کے پاس خارج میں ختم ہوئی۔
(۳) مسلم شریف : حضرت علامہ محمد ابراہیم بلیاوی
قدس سرہ سے ۵۲ نمبر حاصل کیے۔
(۴) طحاوی بعد نماز فجر:حضرت علامہ محمدابراہیم بلیاوی
قدس سرہ سے۵۳ نمبر حاصل کیے۔
(۵) ابو داؤد شریف: حضرت شیخ الادب کے پاس ۵۱ نمبر حاصل کیے۔
(۶) شمائل ترمذی:حضرت شیخ الادب کے پاس ۵۰ نمبر حاصل کیے۔
(۷) نسائی شریف :حضرت مولانا فخر الحسن صاحب کے پاس۵۳ نمبر حاصل کیے۔
(۸) موطا امام محمد:حضرت
مولانا فخر الحسن صاحب
کے پاس ۵۲ نمبر حاصل کیے۔
(۹) موطا امام مالک: مولانا محمد جلیل صاحب کے پاس ۵۲ نمبر حاصل کیے۔
(۱۰) ابن ماجہ شریف،
مولانا ظہور احمد صاحب
کے پاس ۵۱ نمبر حاصل کیے۔
دورہٴ حدیث میں خصوصی
انعامات کے لیے پانچ سونمبرات حاصل کرنے ضروری تھے، اللہ تعالیٰ
کے فضل و کرم سے حضرت والد صاحب نور اللہ مرقدہ نے پانچ سو پندرہ نمبر حاصل کیے،
مولانا جمال الدین مدراسی کو ۵۰۳ نمبر ملے تھے، یہی دونوں حضرات خصوصی انعام
کے مستحق ٹھہرے۔ مولانا ابوالحسن دمکوی کو چار سونوے ، اور مولانا
انظر شاہ کشمیری کو چار سو نواسی نمبر حاصل ہوئے تھے، مولانا
انظر شاہ صاحب دوران سبق والد صاحب کے سبقت لے جانے کا اکثر ذکر کیا کرتے
تھے، تعریفی و توصیفی کلمات سننے والے اب بھی بہت
سارے لوگ موجو دہیں۔
تدریسی
زندگی کا آغاز
حضرت والد صاحب علیہ الرحمہ نے
شوال ۱۳۷۲ھ مطابق جون۱۹۵۳ء میں کلکتہ کے قریب امین پور شاشن کے جونیر
مدرسہ سے تدریسی زندگی کا آغاز کیا؛ لیکن آب و ہوا
موافق نہ ہونے کی وجہ سے صرف دو ماہ بعد ذی الحجہ ۱۳۷۲ھ اگست ۱۹۵۳ء میں گھر واپس آگئے، اور اپنے بڑے بھائی مولانا
محمد یونس صاحب کی جگہ پر (جو کسی وجہ سے بمبئی چلے گئے
تھے )خالص پور ضلع اعظم گڑھ کے ایک مکتب میں پڑھانے لگے۔
تواضع اور انکساری کا یہ
عالم کہ دارالعلوم دیوبند میں اول پوزیشن حاصل کرنے کے باوجود
مکتب میں بیٹھ کر قاعدہٴ بغدادی سے تدریسی
زندگی کا آغاز فرمایا،ناظرہ قرآن کریم کے علاوہ اردو کی
پہلی، دوسری کتاب اور کچھ بچوں کو فارسی کی ابتدائی
کتابیں پڑھائیں۔
رمضان المبارک ۷۳ھ مئی ۱۹۵۴ء کے دوسرے عشرے میں اپنے استاذ حضرت مولانا اعزاز علی
صاحب امروہوی
کی خدمت میں حاضر ہوئے انہوں نے مدرسہ مدینة العلوم اکلہ خان
پور ضلع میرٹھ بھیج دیا،اردو کی پہلی، دوسری،
تیسری ، حمد باری ، آمد نامہ، گلزار دبستاں اور عربی
درجات میں نحومیر اور صرف میر پڑھائی، یہاں شوال ۱۳۷۳ھ تا رجب ۱۳۷۴ھ قیام رہا انگریزی سنہ جون۱۹۵۴ء ہے۔
جامعہ احیاء
العلوم مبارکپور میں
شوال ۱۳۷۴ھ جون ۱۹۵۵ء میں سینئر مدرسہ گوماپھول باڑی آسام چلے
گئے، وہاں پر فقہ و حدیث اور ادب و منطق کی اعلیٰ کتابیں
آپ کے زیر درس رہیں، ۱۳۷۷ھ جون ۱۹۵۸ء تک آپ کا آسام میں قیام رہا، ذی الحجہ۱۳۷۷ھ میں آپ کے استاذ محترم ،مدرسہ احیاء العلوم کے
نائب ناظم، مولانا شمس الدین صاحب نے آپ کو اپنی مادر علمی میں
آکر تدریس کی دعوت دی، آپ نے بشاشت کے ساتھ قبول کرلیا۔
محرم ۱۳۷۸ھ اگست ۱۹۵۸ء میں جامعہ احیاء العلوم مبارک پور پہنچ کر آپ تدریسی
خدمات انجام دینے لگے، احیاء العلوم مبارک پور کے زمانے میں آپ
نے شرح عقائد نسفی،سلم العلوم ، ملا حسن، میبذی، دیوان
متنبی ، مقامات، ہدایہ اولین، ، جلالین، ابن ماجہ اور
مسلم شریف جیسی اہم کتابوں کا درس دیا، یہیں
پر آپ نے شرح عقائد نسفی کی عربی شرح بھی تحریر
فرمائی، اس زمانے میں ہمارے دیار میں والد صاحب کے علم کا
طوطی بولتا تھا، حضرت مولانا اعجاز احمد صاحب اعظمی اور حضرت مولانا
ابو بکر غازی پوری
نے اسی زمانے میں والد صاحب کے پاس تعلیم حاصل کی جو بعد
کے زمانے میں ہندوستان کے افق پر آفتاب و ماہتاب بن کر جگمگائے، شعبان ۱۳۹۰ھ تک یہاں قیام رہا۔ اور اپنے استاذ محترم
حضرت مولانا مفتی محمد یٰسین صاحب علیہ الرحمة کے
دست راست بنے رہے، یہاں پر آپ نے تقریباً بارہ برس تدریسی
خدمات انجام دیں، آج بھی بہت سارے اہل علم اس زمانے کی یادگار
ہیں جو ملک کے طول وعرض میں پھیلے ہوئے ہیں، اللہ تعالیٰ
ان سب کی خدمات کو قبول فرمائے، آمین۔
تبلیغ میں
حصہ
۹۱-۱۳۹۰ھ ۷۱-۱۹۷۰ء تقریباً ایک سال تبلیغ میں وقت لگایا
یہ اس وقت کی بات ہے جب تبلیغ میں جانے والوں کو آج کے
بالمقابل ریاضت و مجاہدے زیادہ کرنے پڑتے تھے، پذیرائی کے
بجائے خشت باری، اور لعنت ملامت کا سامنا کرنا پڑتا تھا ، والد صاحب تبلیغی
جماعت کے سخت حامیوں میں سے تھے، مگر قابل اعتراض باتوں پر گرفت بھی
کیا کرتے تھے۔ اس زمانے میں تبلیغ کے اکابر میں
والد صاحب علیہ الرحمہ کا شمار ہوتا تھا۔
مدرسة الاصلاح
سرائے میر میں
ایک سال
جماعت میں وقت لگانے کے بعد مدرسة الاصلاح سرائے میر میں تدریسی
زندگی شروع کی، تقریباً آٹھ برس اس ادارے میں قیام
رہا، بخاری شریف، ترمذی شریف، حجة اللہ البالغہ، بدایة
المجتہد، شرح عقائد نسفی اور فقہ و حدیث و ادب کی دوسری
اہم کتابیں بھی زیر درس رہیں، اس زمانے کے مشہور تلامذہ میں
مولانا اجمل ایوب اصلاحی صاحب جنہوں نے اور کئی کتابوں کے علاوہ
ابھی حال ہی کتاب الروح لابن قیم کی تحقیق کی
ہے،مولانا طاہر مدنی ناظم جامعة الفلاح بلریا گنج ، مولانا نعیم
الدین اصلاحی استاد جامعة الفلاح ،مولانا سلطان احمد اصلاحی
ادارہ تحقیق و تصنیف علی گڑھ ،مولانا ڈاکٹر محمد ابواللیث
خیرآبادی وغیرہ ہیں، آخرا لذکر مدرسی کے زمانے میں
والد صاحب سے بھرپور استفادہ کرتے رہے، جماعت اسلامی
کے لوگ انہیں اپنا ہمنوا بنانا چاہتے تھے؛ مگر والد صاحب کی پشت پناہی
کی وجہ سے وہ لوگ کامیاب نہ ہوسکے، ایک بار کسی نے برسبیل
تذکرہ والد صاحب سے کہہ دیا کہ مولانا ابو اللیث خیرآبادی
کو مولانا زین العابدین اعظمی نے خراب کیا ورنہ وہ فکر
ونظر میں جماعت اسلامی کے نظریات سے ہم آہنگ ہورہے تھے، اس پر
والد صاحب نے ترکی بہ ترکی جواب دیا کہ مولانا ابو اللیث
تو میرے آدمی تھے، وہ قاسمی ہیں، آپ انہیں اغوا
کرنا چاہتے تھے، میں نے صرف اتنا کیا کہ انہیں اغوا ہونے سے بچالیا۔
پھر جب والد
صاحب جامعہ مظاہرعلوم سہارنپور تشریف لائے تو انہوں نے یہاں کے ناظم
اعلیٰ حضرت مولانا محمد سلمان صاحب مدظلہ العالی سے مشورہ کرکے
مولانا ابواللیث خیرآبادی کا ایک محاضرہ شعبہٴ تخصص
فی الحدیث میں بعنوان” تخریج حدیث“ رکھوایا،
ناظم صاحب مدظلہ العالی نے بڑی بشاشت اور کشادہ قلبی کے ساتھ
والد صاحب کی اس خواہش کا خیر مقدم کیا مولانا موصوف محاضرہ کے
لیے بڑے اعزاز سے بلائے گئے، پھر جب مولانا خیرآبادی نے اپنی
معرکة الآراء تصنیف ”تخریج
الحدیث نشأتہ ومنھجیتہ“ لکھی تو اس کا مسودہ حضرت والد صاحب کی خدمت میں برائے نقد
وتبصرہ بھیجا والد صاحب اور برادر مکرم مولانا مفتی عبد اللہ معروفی
صاحب نے بامعان نظر دیکھ کر ایک رائے قائم کی پھر والد صاحب نے
تفصیلی نقد جو فل اسکیپ سائز میں چارپانچ صفحات پر مشتمل
تھا، میرے ہمراہ خیرآبادی صاحب کی خدمت میں ارسال کیا،
اور کچھ مفید مشورے بھی دئیے، جسے مولانا خیرآبادی
نے کشادہ قلبی کے ساتھ قبول کیا اور شکریہ کا خط بھی لکھا
پھر جب کتاب چھپ کر منصہ شہود پر آگئی تو والد صاحب نے اسے مظاہر علوم اور
دارالعلوم دیوبند کے شعبہ تخصص میں داخل کرنے کی شفارش کی،
بحمداللہ مظاہرعلوم کے شعبہ تخصص فی الحدیث میں یہ کتاب
داخل نصاب ہے۔
دارالعلوم چھاپی
ضلع بناس کانٹھا گجرات میں
یہاں پر ۱۴۰۱ھ ۱۹۸۱ء
میں تقرر ہوا، اور مستقل پانچ برس تک یہاں قیام رہا، اس زمانے میں
حضرت مولانا حبیب اللہ صاحب فیروز پوری گجراتی وہاں پر
مہتمم تھے، اور وہی شیخ الحدیث بھی تھے، اس سے قبل وہ
دارالعلوم ندوة العلماء لکھنوٴ میں بھی شیخ الحدیث
رہ چکے تھے، والد صاحب کے بڑے مداح اور بڑے قدردان ، کشادہ قلب، روشن جبیں،
نہایت خیراندیش ،ہمہ وقت ادارے کو ترقی دینے میں
کوشاں، مرنجاں مرنج شخصیت کے مالک، عربی،فارسی اور اردو تینوں
زبانوں میں شعر گوئی پر مکمل قدرت ، ”صوراسرافیل“، ”حرکت آفاق“ اور”شہادت
بابری مسجد“ ان کا مجموعہٴ کلام ہے ،شاعری میں اقبال کا
رنگ غالب ہے، صاحب دیوان شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ مسند حدیث پر جلوہ
افروز، اللہ تعالیٰ ان کی خدمتوں کو قبول فرمائے، وہاں والد
صاحب کے پاس صحیح مسلم، طحاوی شریف اور حدیث وفقہ و ادب
کے دیگر کتابیں بھی زیر درس رہیں، حضرت مولانا بار
بار آپ کو بخاری شریف پڑھانے کی پیش کش کرتے؛ مگر والد
صاحب انکار کردیتے۔والد صاحب بخاری
شریف کی تقسیم کے کسی طرح قائل نہ تھے۔
مولانا قاری عبد الستار صاحب
اسلام پوری کو خارج میں ڈھائی سال کی محنت شاقہ کے بعد
قراء تِ سبعہ مکمل کرائی، اور قراء ت سبعہ خا لصة لوجہ الکریم پڑھائی،
اس زمانے تک پورے شمالی گجرات میں ایک بھی سبعہ کا قاری
نہ تھا، آج وہاں پر جتنے بھی قراء سبعہ ہیں ان کا سلسلہ اسناد براہ
راست یابالواسطہ والد صاحب علیہ الرحمہ پر ہی جاکر آگے بڑھتا ہے۔اس
علاقے کے لیے والد صاحب
کا یہ ایک تجویدی کارنامہ ہے وہاں کے مشہور تلامذہ اور
استفادہ کرنے والوں میں چند اہم نام یہ ہیں۔
حضرت مولانا قاری عبدالستار صاحب
اسلام پوری نائب شیخ الحدیث مدرسہ امداد العلوم ڈوالی
گجرات
مولانا محمد یونس صاحب شیخ الحدیث
مدرسہ امداد العلوم وڈالی گجرات
مولانا مفتی عبد الرحمن صاحب کالیڑا،
صدر مفتی دارالعلوم چھاپی گجرات
مولانا محمد یعقوب صاحب نائب مہتمم
دارالعلوم چھاپی گجرات
مولانا ثناء اللہ رسول پوری صاحب
استاذ فقہ و حدیث دارالعلوم چھاپی گجرات
مولانا رفیق احمد صاحب شیخ الحدیث
دارالعلوم چھاپی گجرات جنہوں نے سرائے میر کے زمانے میں والد
صاحب سے استفادہ کیا تھا۔
مولانا رشید احمد صاحب ابن مفتی کفایت
اللہ صاحب مہتمم خانقاہ خلیلیہ ماہی
وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں،تعلیم سے فراغت کے بعد انھوں نے ایک
رمضان بغرض استفادہ پورہ معروف میں گزارا، سفینة البلغاء اور بعض دیگر
اہم کتابوں کے علمی اشکالات حل کئے۔
میری والدہ مرحومہ کی
علالت کی وجہ سے والد صاحب کو ایک سال کی بغرض علاج چھٹی
لینی پڑی، ہمارا قیام پورہ معروف میں تھا، جامعہ
مظہرالعلوم بنارس میں ایک شیخ الحدیث کی ضرورت تھی،
حضرت مولانا نعمت اللہ صاحب اعظمی مظہر العلوم چھوڑ کر دارالعلوم دیوبند
جا چکے تھے ، مولانا عبدالجبار صاحب مئوی(تلمیذ رشید محدث کبیر)ان
کی جگہ سنبھالے ہوئے تھے،جنھوں نے حواشیٴ بخاری شریف
کی اغلاط کی تصحیح فرماکر”التصویبات لما فی
حواشی البخاری من التصحیفات“ کے نام سے ایک علمی کام کیا ہے، مولانا عبد
المغنی صاحب صدر مدرس جامعہ مظہرالعلوم بنارس نے اصرار کرکے والد صاحب کو
راضی کرلیا، پہلے والد صاحب وہاں پر صرف ایک سال کے لیے
آمادہ ہوئے مگر اگلے شوال ۱۴۰۵ھ جون ۱۹۸۵ء میری والدہ مرحومہ اس دار فانی سے رخصت
ہوگئیں، ہم بھائی بہنوں کی تعلیم و تربیت اور کچھ
دوسرے عوارض کی وجہ سے والد صاحب پھر گجرات نہ جاسکے، البتہ اخیر عمر
تک اہل گجرات سے اچھے مراسم اور مخلصانہ تعلقات قائم رہے، جامعہ مظہرالعلوم بنارس
میں والد صاحب ۹ برس ۳ ماہ شیخ الحدیث کے عہدہٴ جلیلہ پر فائز
رہ کر ۱۹۹۳ء میں رٹائرڈ ہوگئے، یہاں پر بخاری شریف،
ترمذی شریف، شرح عقائد، حجة اللہ البالغہ، ہدایہ اولین
وآخرین، اور نحو و صرف وغیرہ کی کتابیں زیر درس رہیں۔
دارالعلوم سبیل
السلام حیدرآباد میں دوسال
ابھی مظہرالعلوم بنارس سے رٹائرڈ
ہونے میں کچھ وقت باقی تھا کہ مولانا محمدرضوان القاسمی صاحب نے ہمارے ایک عزیز مولانا
نورا لعین کو پا گنجی کی معرفت اپنے ادارہ میں آنے کی
دعوت دی اور اصرار فرمایا کہ رٹائرڈ ہونے سے قبل ہی یہاں
پر آکر کچھ روز قیام کرلیں؛ چنانچہ والد صاحب نے اسے منظور فرمالیا،
اور ایک سفر کیا پھر واپس آکر کچھ دن مظہرالعلوم بنارس میں مقیم
رہے، رٹائرڈ ہونے کے فوراً بعد مع اہل و عیال حیدرآباد تشریف لے
گئے، وہاں پر جدید تلامذہ کے علاوہ مولانا خالد سیف اللہ رحمانی،
اور مولانا محمدرضوان القاسمی، مولانااحمد عبد المجیب قاسمی ندوی،
مولانا محمد مصطفےٰ مفتاحی چمپارنی(جو احیاء العلوم
مبارکپور کے زمانے کے والد صاحب کے شاگرد تھے) انہوں نے بھر پور استفادہ کیا
والد صاحب کی بڑائی اور عظمت ہمیشہ ان حضرات کے دلوں میں
رہی؛ حالانکہ یہ تینوں حضرات ملک میں ایک نمایاں
علمی حیثیت رکھتے تھے:
(۱) مولانا خالد سیف اللہ رحمانی ،صاحب بصیرت
عالم دین ہیں، فقہ و فتاوی اور خاص کر جدید فقہی
مسائل میں اس وقت پور ے ملک میں مرجع کی حیثیت
رکھتے ہیں، دس بارہ کتابوں کے مصنف ہیں، قاموس الفقہ ، کتاب الفتاوی،
جدید فقہی مسائل، حلال و حرام جیسی اہم کتابوں کے مصنف ہیں،
اللہ انہیں سلامت رکھے، روزنامہ منصف جمعہ ایڈیشن میں ”شمع
فروزاں “ کے عنوان سے مقبول کالم نگارہیں۔
(۲) مولانا محمد رضوان القاسمی صاحب: کئی کتابوں کے
مصنف، بہترین خطیب، نہایت خوش وضع، بڑے خلیق وملنسار، شعر
و ادب کا ستھرا ذوق رکھنے والے، بہترین اسلوب تحریر اور ادیبانہ
طرز نگارش کے مالک تھے، چند برس پہلے انتقال کرگئے، اللہ تعالیٰ مغفرت
فرماکر درجات بلند فرمائے، دکن کے کثیر الاشاعت اردو اخبار”روز نامہ سیاست“میں
ادبی صفحات اور ”سوال وجواب“کے عنوان سے مستقل کالم نگار تھے۔
(۳) مولانا احمد عبد المجیب قاسمی ندوی عربی
زبان و ادب کے رمز شناس، انگریزی زبان پر بھی قدرت، تدریس
میں اپنی مثال آپ ،عرب مہمانوں کی آمد پر دارالعلوم سبیل
السلام حیدرآباد میں نظامت کے فرائض انجام دیتے تھے، فی
الحال امریکہ میں رہائش پذیر ہیں، دعوتی اور تحریکی
ذہن رکھتے ہیں۔
ہمار ا قیام حیدرآباد میں دو
سال رہا،اہل دکن کی بود وباش ،ان کی نشست وبرخاست اور ان کی تہذیب
وثقافت میں عظمت رفتہ کے نقوش کی کچھ جھلکیاں اب بھی
دکھائی دیتی ہیں۔
حضرت مولانا نعمت اللہ صاحب اعظمی مدظلہ
العالی کی معرفت حضرت مولانا محمد طلحہ صاحب حضرت مولانا محمد سلمان
صاحب ، حضرت مولانا اسعد مدنی صاحب مرحوم، نے جامعہ مظاہرعلوم سہارنپور کے لیے
بلالیا، مولانا محمد طلحہ صاحب کاندھلوی بہ نفس نفیس دیوبند
تشریف لے گئے، اور مولانا نعمت اللہ اعظمی صاحب سے اس سلسلہ میں
مشورہ کرکے گزارش کی کہ جیسے بھی ممکن ہو آپ مولانا کو آمادہ کریں۔
جامعہ مظاہرعلوم
سہارنپور میں
جامعہ
مظاہرعلوم سہارنپور ملت اسلامیہ ہند کے دلوں کی دھڑکن ،علماء
مظاہرعلوم سہارنپور کی خدمات بے مثال، حدیث پاک کی تفہیم
وتشریح اور اس کی ترویج و اشاعت میں اس کا اہم کردار، بذل
المجہود فی حل سنن ابی داود مصنفہ حضرت مولانا خلیل احمد
سہارنپوری،أوجز
المسالک الی موطأمالک ، الابواب والتراجم مصنفہ حضرت شیخ محمد زکریا
کاندھلوی
اور الیواقت الغالیہ فی تحقیق الأحادیث العالیہ
مصنفہ مولانا محمد یونس صاحب جونپوری مد ظلہم جیسی شاہکار
تصانیف علماء مظاہرعلوم کا بیش قیمت علمی سرمایہ ہیں۔جنگ
آزادی میں جہاں کے علماء کے سرفروشانہ کارناموں کو رہتی دنیا
تک بھلایا نہیں جاسکتا، یہاں کی مجلس شوریٰ
نے یہ طے کیا کہ جامعہ میں ایک شعبہٴ تخصص فی
الحدیث قائم کیا جائے، اور اس کے لیے نہایت منفرد مقام
رکھنے والے متون حدیث اور ماہر اسماء الرجال اور دیگر علوم و فنون پر
کامل دستگاہ رکھنے والے بالغ نظر عالم دین ، حضرت مولانا زین العابدین
اعظمی معروفی پر نظر انتخاب جاکر ٹھہر گئی، اخیر عمر میں
والد صاحب جس طرح کا علمی کام کرنا چاہتے تھے ،مظاہر علوم کی فضا اس
کے لیے سازگار معلوم ہوئی؛ چنانچہ والد صاحب یہاں کے لیے
آمادہ ہوگئے۔
۱۴۱۵ھ ۱۹۹۵ء
میں اس شعبہ کا یہاں پر قیام عمل میں آیا، وہ دن ہے
اور آج کا دن اس اٹھارہ سال پر محیط عرصہ میں بے شمار اہل علم یہاں
سے فیض یاب ہو کر ملک کے طول و عرض میں پھیلتے چلے گئے،
والد صاحب علیہ الرحمہ نے شبانہ روز محنت کرکے نوخیزوں کی صلاحیتوں
میں چار چاند لگادئے، ان کے شاگرد، ان کے ارد گرد پروانوں کی طرح
منڈلاتے رہے اور اپنی فدائیت اور جاں نثاری کا ثبوت دیتے
رہے، جن کی تعداد ایک سو کے قریب پہنچ چکی ہے، جو در حقیقت
کیفیت کے اعتبار سے ہزاروں علماء وفضلاء پر بھاری ہیں،
اختصاص فی الحدیث کرنے والوں کی کثرت سے علم حدیث اور فن
اسماء الرجال میں بہت سارے لوگوں کی اجارہ داری ختم ہوگئی،
آج کا ایک نوجوان فاضل کسی ادارے کے کبیرالسن شیخ الحدیث
کی آنکھ میں آنکھ ملا کر بات کرسکتا ہے، یہاں کے چند برسوں کے
بعد ازہر ہند دارالعلوم دیوبند کی مجلس شوریٰ نے جب تخصص
فی الحدیث کا شعبہ قائم کیا، الحمدلله دونوں جگہوں سے کام کے
افراد بڑی تیزی سے نکل رہے ہیں، علماء کی کھیپ
کی کھیپ ترقیات کی راہ پر گامزن ہے، اللہ تبارک و تعالیٰ
ان سب کو نفس و شیطان کے دھوکے سے بچا کر پورے اخلاص کے ساتھ علم و عمل اور
تحقیقات و تصنیفات کے میدان میں آگے قدم بڑھانے کی
توفیق بخشے۔آمین
اس شعبہ کے فیض یافتگان میں
حضرت مولانا مفتی عبد اللہ معروفی صاحب استاذ شعبہ تخصص فی الحدیث
دارالعلوم دیوبند ،مولانا محمد حسین بنگلادیشی ، مولانا
عابد الرحمن بنگلا دیشی، مولانا حفظ الرحمن گلبرگہ ،مولاناامان اللہ
سر لانکی،مولانا صغیراحمد پرتاب گڈھی، ملک اور بیرون ملک
کے مختلف اداروں میں علم حدیث کی خدمات میں مصروف ہیں
اورخود جامعہ مظاہرعلوم میں مولانا محمدخالد سعید مبارک پوری،
مولانا محمد معاویہ گورکھپوری، مولانا عبد العظیم بلیاوی،
مولانا محمد یوسف گجراتی شعبہٴ تخصص فی الحدیث میں
اہم تدریسی وتحقیقی خدمات انجام دے رہے ہیں۔
***
جذبات دل
فروح وریحان وجنات نعیم
۴ ۳ ۴ ۱ ھ
بر وفات حسرت آیات حضرت مولانا زین العابدین
صاحب اعظمی
اف کس کے سوگ میں ہے مری چشم اشک بار یہ کس کے غم میں ہیں
مرے قلب جگر فگار
بے چین و بے قرار ہوں آتا نہیں قرار بزم جہاں سے اٹھ گیا یکتائے
روزگار
دل کا ہرایک زخم عیاں ہوگیا ہے آج یہ کون زیر خاک نہاں
ہوگیا ہے آج
سونی سی ہوگئی ہے مرے دل کی انجمن دوہے غمِ فراق کے ہونٹوں پہ نغمہ
زن
دنیائے علم وفن تھی تری ضو سے ضو فگن تحقیق وجستجو میں رہا کرتا
تھا مگن
سب پوچھتے ہیں دل کا سہارا کہاں گیا جو
زیب چرخ تھا وہ ستارا کہاں گیا
امرت کو پی کے جامہٴ ہستی دیا اتار باغ بہشت کی ہو میسر
تجھے بہار
بوئے وفا سے اب بھی زمانہ ہے مشکبار تھی سرزمینِ علم ترے
دم سے لالہ زار
آہستہ برگِ گل بہ فشاں بر مزار او بس نازک است شیشہٴ دل درکنار او
علم حدیث پاک کا دیوانہ چل بسا روشن تھی جس سے شمع
وہ پروانہ چل بسا
ویراں ہے میکدہ خم وپیمانہ چل بسا جو نازش چمن تھا وہ مستانہ چل
بسا
کچھ داغہائے دل ہیں نہاں اندرون دل وجہ نشاط باعث راحت سکون دل
نالوں کو جوڑ دے مرے یارب !اثر کے ساتھ پرواز بخش!بھیگے ہوئے بال وپر کے ساتھ
وابستہ میں رہوں گا یونہی تیرے در کے
ساتھ ہو علم و آگہی بھی
عطا چشم تر کے ساتھ
آباد تیری یاد سے دل کا چمن رہے آجائے صبر دل میں نہ
رنج ومحن رہے
یاقوت و لعل وگوہر نایاب اس کی ذات طارق متاع فکر و نظر اس کی
بات بات
وہ نازش چمن تھا وہی رشک کائنات افسوس خشک ہوگیا سرچشمہٴ حیات
نالہ دہائی دینے کو پہونچا ہے عرش پر نعم البدل کی آج ضرورت
ہے فرش پر
واردات قلب
حیف استاذ العلماء رفت
۳ ۱ ۰ ۲ ء
بر وفات حسرت آیات حضرت مولانا زین العابدین
صاحب اعظمی
علم سے سرشار تھے مولانا زین العابدیں اک دُرِ شہوارتھے مولانا زین
العابدیں
جی بہل جاتا تھا ان کی انجمن میں ہم نفس مونس وغم خوار تھے مولانا زین
العابدیں
اتباع سنت نبوی میں گذری تھی حیات کس قدر دیں دار تھے مولانا
زین العابدیں
ہم نے اس دنیا میں ان سا دوسرا دیکھا نہیں کتنے خو ش گفتار تھے مولانا زین
العابدیں
رہروِ راہِ طریقت پیکر صدق وصفا صاحب دستار تھے مولانا زین
العابدیں
سچ تو یہ ہے آپ ہی سے آبرو تھی علم کی علم سے ضو بار تھے مولانا زین
العابدیں
اجنبیت کا کبھی احساس بھی ہوتا نہ تھا کتنے خوش اطوار تھے مولانا زین
العابدیں
مرتے دم بھی ان کے چہرے پر نہ تھی پژ مردگی شوق میں سرشار تھے مولانا زین
العابدیں
مسکرا کر چل دیے آیا جو پیغام اجل واقعی تیار تھے مولانا زین
العابدیں
عصمت ازواج واصحابِ پیمبر کے لیے آہنی دیوار تھے
مولانا زین العابدیں
بخش دے ان کو مرے مولا مرے پروردگار علم کا مینار تھے مولانا زین العابدیں
یہ زمانہ تا قیامت آپ کی دے گا مثال ایسا اک کردار تھے مولانا
زین العابدیں
جو بھی جاتا تھا اسے محسوس تک ہوتا نہ تھا کس قدر بیمار تھے مولانا زین
العابدیں
بے نیازی اور استغنا کی خوگر ان کی ذات کس قدر خود دار تھے مولانا زین
العابدیں
شاعر آتش نوا کہتا ہے یارب رحم کر عاشق سرکار تھے مولانا زین العابدیں
طارق خستہ کا پہونچے ان کی خدمت میں سلام
وارث دین نبی تھے وہ زمانے کے امام
--------------------------------------------
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ 11 ،
جلد: 97 ، محرم الحرام 1435 ہجری مطابق نومبر 2013ء